حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، بہ قلم آیت اللہ میرزا جواد ملکی تبریزی ماہ ذی القعدہ کے اعمال اس مکتوب میں قارئین کے پیش خدمت ہیں:
ماہ ہاۓ حرام میں سے پہلا ماہ حرام
ذی القعدہ کا مہینہ حرام مہینوں میں سے پہلا ہے، دوسرے مہینوں کی بہ نسبت ان مہینوں کی زیادہ فضیلت اور احترام ہے، کیونکہ ان مہینوں میں کفار سے جنگ حرام ہے۔
ان مہینوں میں عبادت کی اہمیت کا اندازہ اسی سے ہو جاتا ہے کہ جب خدا نے ان مہینوں میں کفار تک سے جنگ کو حرام کیا ہے تو انسان کیونکر ان مہینوں میں اپنے خدا سے اسکی مخالفت کرکے اس سے جنگ کر سکتا ہے۔
حرام مہینوں کی خصوصیات کے سلسلے میں شیخ مفید -علیہ الرحمہ- سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص حرام مہینوں میں سے تین دن: جمعرات، جمعہ اور سنیچر کے دن روزہ رکھے خدا اسکے لئے ایک سال کی عبادت لکھ دیتا ہے)
اور دوسری روایت میں وارد ہوا کہ:
«نو سو سال کی عبادت جس کے دنوں میں روزے اور راتوں میں شب بیداری کی گئی ہو لکھے جائیں گے.»
اس مہنے کی اتوار کا توبہ
حضرت رسول اکرم (ص) سے منقول ہے کہ ماہ ذی القعدہ کے اتوار کے دن غسل کرکے وضو کرو، پھر چار رکعت نماز توبہ یوں پڑھو کہ ہر رکعت میں حمد کے بعد، تین بار«قل هو اللّه احد» اور ایک بار «معوذتین» (قل اعوذ برب الناس و قل اعوذ برب الفلق) پڑھو. پھر ۷۰/ ستر بار استغفار کرو اور آخر میں«لا حول و لا قوّة إلا باللّه»کہو. پھر اسکے بعد یہ کہو: «یا عزیز یا غفّار اغفر لی ذنوبی و ذنوب جمیع المؤمنین و المؤمنات فإنّه لا یغفر الذّنوب إلا أنت""»؛ (اے عزیز! اے بخشنے والے! ہمارے گناہوں اور جملہ مومنین اور مومنات کے گناہوں سے در گزر فرما کہ تیرے علاوہ کوئی گناہوں کو معاف نہیں کرتا ہے).
نیمہ ذی القعدہ کی شب کے اعمال
رسول اکرم صلّی اللّه علیه و آله و سلّم سے مروی ہے کہ آپنے فرمایا:
«۱۵ ذی القعده کی شب مبارک شب ہے، خدا اس رات نگاہ رحمت سے اپنے بندوں کو تکتا ہے، جو عمل سے خدا کا فرمان بردار ہو، اس کی جزاء ایسی ہی ہے گویا کہ مسجد میں اعتکاف پذیر سو ۱۰۰/ روزہ داروں کی جزاء، جنہوں نے چشم زدن کی مدت میں بھی خدا کی نافرمانی نہ کی ہو.»
اور اسی طرح دوسری روایت میں وارد ہوا ہے کہ:
«اس شب خدا سے جو چیز مانگی جائے عطا ہوتی ہے».
کیونکہ زیادہ تر لوگ اس شب سے غافل اور بہت کم افراد اطاعت خدا میں مشغول رہتے ہیں اس لئے اس شب کی اہمیت کئی گنا ہو جاتی ہے، کیونکہ دوسروں کی غفلت کی گھڑی میں توجہ اور تمرکز سرعت اجابت کا باعث ہے، اور اعمال بھی خدا کی نگاہ میں بڑے، قبولیت سے نزدیک، اور بڑی جزاء کے حامل ہیں۔
دحوالارض کے اعمال
اس دن کا روزہ
امیرالمؤمنین علیه السّلام نے فرمایا:
«سب سے پہلی رحمت جو اسمان سے زمین پر نازل ہوئی وہ ۲۵/ پچیس ذی القعدہ کو نازل ہوئی۔ جو اس دن روزہ رکھے اور شب عبادت میں بسر کرے، اسے سو ۱۰۰/ سال کی عبادت کا ثواب دیا جائے گا جس کے دنوں کو روزہ اور شب عبادت میں گزاری گئی ہو، جو بھی یاد خدا کے لئے جمع ہو وہ پراکندہ ہونے سے پہلے اپنی حاجات پا لے گا، اس دن ایک ملیین (۱۰۰۰۰۰۰) رحمت نازل ہوتی ہے جنمیں سے ۹۹۰۰۰/ ننانوے ھزار رحمت اس دن روزہ رکھنے والوں اور عبادت کرنے والوں کے لئے ہے»۔
دحو الارض کے دن کی نماز
اور اسی طرح مروی ہے کہ: ظهرسے پہلے، دو رکعت نماز ایک بار حمد اور پانج بار شمس اور ضحی کے ساتھ پڑھے اور سلام کے بعد کہے :لا حول و لا قوة الا باللّه العلی العظیم اور دعا کرے، پھر کہے:
«یا مقیل العثرات أقلنی عثرتی. یا مجیب الدّعوات أجب دعوتی. یا سامع الأصوات اسمع صوتی و ارحمنی و تجاوز عن سیّئاتی و ما عندی، یا ذا الجلال و الإکرام»
دحو الارض کے دن کی دعاء
اس دعاء کو پڑھنا جس کی ابتداء «یا داحی الکعبة» سے ہے اس دن مستحب ہے، وہ دعا یہ ہے:
اللّهُمَّ داحِیَ الْکَعْبَةِ وَ فالِقَ الْحَبَّةِ وَ صارِفَ اللَّزِبَةِ [۲] وَ کاشِفَ الْکُرْبَةِ، اسْأَلُکَ فِی هذا الْیَوْمِ، مِنْ أَیّامِکَ الَّتِی اعْظَمْتَ حَقَّها، وَ قَدَّمْتَ سَبْقَها، وَ جَعَلْتَها عِنْدَ الْمُؤْمِنِینَ وَدِیعَةً، وَ الَیْکَ ذَرِیعَةً، وَ بِرَحْمَتِکَ الْوَسِیعَةِ انْ تُصَلِّیَ عَلی مُحَمَّدٍ، الْمُنْتَجَبِ فِی الْمِیثاقِ، الْقَرِیبِ یَوْمَ التَّلاقِ، فاتِقِ کُلِّ رَتْقٍ، وَ داعٍ الی کُلِّ حَقٍّ، وَ عَلی اهْلِ بَیْتِهِ الأَطْهارِ الْهُداةِ الْمَنارِ، دَعائِمِ الْجَبَّارِ، وَ وُلاةِ الْجَنَّةِ وَ النَّارِ.
وَ أَعْطِنا فِی یَوْمِنا هذا مِنْ عَطائِکَ الْمَخْزُونِ، غَیْرِ مَقْطُوعٍ وَ لا مَمْنُونٍ، تَجْمَعْ لَنا التَّوْبَةَ وَ حُسْنَ الاوْبَةِ، یا خَیْرَ مَدْعُوٍّ وَ اکْرَمَ مَرْجُوٍّ، یا کَفِیُّ یا وَفِیُّ، یا مَنْ لُطْفُهُ خَفِیٌّ، الْطُفْ لِی بِلُطْفِکَ، وَ اسْعِدْنِی بِعَفْوِکَ، وَ ایِّدْنِی بِنَصْرِکَ، وَ لا تُنْسِنِی کَرِیمَ ذِکْرِکَ، بِوُلاةِ امْرِکَ وَ حَفَظَةِ سِرِّکَ، وَ احْفَظْنِی مِنْ شَوائِبِ الدَّهْرِ الی یَوْمِ الْحَشْرِ وَ النَّشْرِ، وَ اشْهِدْنِی أَوْلِیائَکَ عِنْدَ خُرُوجِ نَفْسِی وَ حُلُولِ رَمْسِی [۳] وَ انْقِطاعِ عَمَلِی وَ انْقِضاءِ اجَلِی.
اللَّهُمَّ وَ اذْکُرْنِی عَلی طُولِ الْبِلی إِذا حَلَلْتُ بَیْنَ أَطْباقِ الثَّری، وَ نَسِیَنِی النَّاسُونَ مِنَ الْوَری، وَ احْلِلْنِی دارَ الْمُقامَةِ، وَ بَوِّئْنِی مَنْزِلَ الْکَرامَةِ، وَ اجْعَلْنِی مِنْ مُرافِقِی أَوْلِیائِکَ وَ اهْلِ اجْتِبائِکَ وَ أَصْفِیائِکَ، وَ بارِکْ لِی فِی لِقائِکَ، وَ ارْزُقْنِی حُسْنَ الْعَمَلِ قَبْلَ حُلُولِ الأَجَلِّ، بَرِیئاً مِنَ الزَّلَلِ وَ سُوءِ الْخَطَلِ.
اللَّهُمَّ وَ اوْرِدْنِی حَوْضَ نَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَ اهْلِ بَیْتِهِ، وَ اسْقِنِی مَشْرَباً رَوِیّاً سائِغاً هَنِیئاً لا اظْمَأُ بَعْدَهُ وَ لا أُحَلَّأُ وِرْدَهُ وَ لا عَنْهُ أُذادُ [۴]، وَ اجْعَلْهُ لِی خَیْرَ زادٍ وَ أَوْفی مِیعادٍ یَوْمَ یَقُومُ الأَشْهادُ.
اللّهُمَّ وَ الْعَنْ جَبابِرَةَ الأَوَّلِینَ وَ الْآخِرِینَ لِحُقُوقِ أَوْلِیائِکَ الْمُسْتَأْثِرِینَ.
اللَّهُمَّ وَ اقْصِمْ دَعائِمَهُمْ، وَ اهْلِکْ أَشْیاعَهُمْ وَ عامِلَهُمْ، وَ عَجِّلْ مَهالِکَهُمْ،وَ اسْلُبْهُمْ مَمالِکَهُمْ، وَ ضَیِّقْ عَلَیْهِمْ مَسالِکَهُمْ، وَ الْعَنْ مُساهِمَهُمْ وَ مَشارِکَهُمْ.
اللَّهُمَّ وَ عَجِّلْ فَرَجَ أَوْلِیائِکَ، وَ ارْدُدْ عَلَیْهِمْ مَظالِمَهُمْ، وَ اظْهِرْ بِالْحَقِّ قائِمَهُمْ، وَ اجْعَلْهُ لِدِینِکَ مُنْتَصِراً، وَ بِأَمْرِکَ فِی أَعْدائِکَ مُؤْتَمِراً، اللّهُمَّ احْفُفْهُ بِمَلائِکَةِ النَّصْرِ وَ بِما الْقَیْتَ إِلَیْهِ مِنَ الامْرِ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ مُنْتَقِماً لَکَ حَتّی تَرْضَی، وَ یَعُودَ دِینُکَ بِهِ وَ عَلی یَدَیْهِ جَدِیداً غَضّاً، وَ یُمَحِّصَ الْحَقَّ مَحْصاً، وَ یَرْفَضَ الْباطِلَ رَفْضاً.
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَیْهِ وَ عَلی جَمِیعِ آبائِهِ، وَ اجْعَلْنا مِنْ صَحْبِهِ وَ اسْرَتِهِ، وَ ابْعَثْنا فِی کَرَّتِهِ حَتّی نَکُونَ فِی زَمانِهِ مِنْ أَعْوانِهِ، اللّهُمَّ ادْرِکْ بِنا قِیامَهُ، وَ اشْهِدْنا أَیَّامَهُ، وَ صَلِّ عَلَیْهِ وَ عَلَیْهِ السَّلامُ، وَ ارْدُدْ إِلَیْنا سَلامَهُ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَکاتُهُ .[۵]
پانویس:
۱. الإقبال بالأعمال الحسنة (ط - الحدیثة)، ج۲، ص: ۲۷ تا ۲۹
۲. اللزبة: الشدة، القحط.
۳. الرمس: القبر.
۴. ذاده: منعه.
۵. الإقبال بالأعمال الحسنة (ط - الحدیثة)، ج۲، ص: ۲۷ تا ۲۹